28 C
Kolkata
Thursday, May 9, 2024

شتا بدی کا کیٹرنگ اسٹاف اصل ہیرو, میں صرف پیغام رساں ہوں

ادھر جب کہ وزیر مملکت برائے ریلوے نے میری ٹویٹ کو سراہا ہے مجھے امید ہے کہ پنٹری کار کے کارکنوں کو اپنی انسان دوستی کے اعتراف سے حوصلہ ملے گا

پیر کی شام رانچی ھوڑہ شتا بدی ٹرین میں مجھے افطاری مہیا کرائی گئی اس سے متعلق میری ٹویٹ پر جو ردعمل آ رہا ہے اس سے میں بہت پر جوش ہوں۔ نہ صرف یہ پوسٹ سماجی میل جول کے میڈیا پر بہت بری طرح پھیلی بلکہ ٹائمز آف انڈیا، انڈیا ٹائمز, این ڈی ٹی وی (انگریزی ہندی دونوں), ہندوستان ٹائمز، انڈین ایکسپریس اور پی ٹی آئی سمیت تمام بڑی ہندوستانی میڈیا تنظیموں نےیہ خبر جاری کی۔ یہاں تک کہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی اس کی خبر نگاری ہوئی۔ یہ پیغام کروڑوں لوگوں تک پہنچا ۔ ہزاروں لوگوں نے ٹوئٹر، فیس بک اور جس جس نیوز ویب سائٹس پر یہ خبر چھپی وہاں،ردعمل کا بھی مظاہرہ کیا۔ حالات کے تسلسل نے مجھے اس رپورٹ کے لکھنے کے بارے میں سوچنے کی تحریک دی۔
بہتوں کا خیال ہے کہ مجھے یہ ٹویٹ نہیں کرنی چاہئے تھی کیونکہ حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ محبت اور امن کی ہر کاوشِ یا تو نظر انداز ہوتی ہے یا سز ا کی مستحق قرار دی جاتی ہے۔ اُن لوگوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ کہیں افطاری فراہم کرنے والے اسٹاف کو اپنے کام  سے ہاتھ نہ دھونا پڑے۔ بہتوں کا خیال تھا کہ مجھے اس پنٹري مین کو سراہنا چاہئے تھا ،موریلوے کو نہیں۔کئی دوسرے لوگ آپس میں اس پر بحث کرتے رہے اور کہا کہ جب دوسرے عقائد کے لوگ روزہ رکھے ہو ں تو اُن کیلئے خصوصی پکوان کا اہتمام کیا جائے۔
پہلی اہم بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مذہب میرے لئے ذاتی معاملہ ہے۔ میں یقین کرتا ہوں کہ عوامی زندگی میں اس کا زیادہ ذکر نہیں ہونا چاہئے ۔ پینٹری کے کارکنوں کا جذبہ اور میرا ردعمل دونوں چیزیں حقیقی اور فوری تھیں۔ افطار مہیا کرنا خصوصی جذبہ تھا ۔ نہ میں نے اس کا مطالبہ کیا تھا نہ درخواست۔ پھر میں گھر سے بنی ہوئی افطاری لے کر ٹرین پر سوار ہوا تھا ۔ میں چونکہ افطاری کے بعد گرم  چائے پینا پسند کرتا ہوں اس لئے میں نے روزہ کا حوالہ دیا۔ جب پنٹری والا چائے لے کر آیا تو میں نے صرف اتنا کہا کہ مجھے بعد میں دینا۔ چونکہ مجھے اس کا سبب بتانا تھا کہ کیوں بعد میں چائے پیوں گا اس لئے روزہ کا ذکر آیا۔ ورنہ شتا بدی اور راجدھانی جیسی ٹرینوں میں کیٹرنگ اسٹاف کو ناشتہ، کھانا اور چائے کی فراہمی کیلئے نظام _ اوقات کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ چونکہ میں نے روزے کی بات کہی تھی اس لئے پینٹری والے نے افطاری کی پلیٹ دینے سے پہلے پھر مجھ سے ایک بار پوچھا۔ جو آدمی افطاری لے کر آیا تھا وہ کوئی مسٹر پرساد تھا ۔
میں نے افطاری فراہم کرنے سے وابستہ دونوں افراد کا شکریہ ادا کیا پھر اس کے بارے میں ٹویٹ کیا۔ ایسا نہیں ملک کے موجودہ حالات کے پیش_ نظر اس طرح کی ٹویٹ کے مضمرات سے واقف نہیں کیونکہ اس وقت ماحول میں اتنی زہر نا کی ہے کہ مہربانی کے ہر عمل کی اہانت کی جاتی ہے۔
لیکن سفر کے دوران دشواریوں پر ہم لوگ ٹویٹ کرتے ہیں تو مہربانی کے اس عمل سے دنیا کو واقف کرنے کیلئے اس کا اشتراک کیوں نہ کیا جاتا؟ اور ٹویٹ کرتے وقت اس سچ کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں کہ ہندوستانی ریلوے کے تحت یہ سہولت مل رہی ہے ۔ ہاں مجھے بعد میں اس کا اندازہ ہوا کے مجھے آئی آر سی ٹی سی کے ٹویٹر ہینڈل کو بھی نشانہ کرنا چاہئے تھا۔
سماجی میڈیا پر سرگرم لوگوں نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ آج کے جو حالات ہیں ان میں ہندوستانی آرمی  کو بھی ایسی ایک ٹویٹ مجبوراً ڈیلیٹ کرنی پڑی تھی کیونکہ ایک نیوز چینل نے کشمیریوں کے ساتھ افطار کرنے والے فوجیوں کے خلاف پوری مہم چھیڑ دی تھی۔۔مجھے اس پس منظر میں بھی یہ ٹویٹ نہیں کرنا تھا۔
تو پھر لوگ پينٹری اسٹاف کی کوششوں سے کیسے واقف ہوں گے؟ میں اب بھی اس پر یقین کرتا ہوں کہ بیشتر ہندوستانی  امن اور محبت پر یقین رکھتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے جذبوں کی بھی قدر کرتے ہیں۔ اس پیغام کے اس طرح پھیلنے سے بھی یہی ثابت ہوا۔
اس کے علاوہ انسانیت کے ان سفیروں کے ساتھ کوئی نا انصافی ہو تو ہم اس کے خلاف کوئی موقف کیوں نہیں اختیار کر سکتے؟
یہاں زیر _ بحث معاملہ میں ایک وزیر _مملکت برائے ریلوے درشنا جردوش نے میری ٹویٹ کو سراہا ہے۔ مجھے یقین ہے دونوں پینٹر ی والوں کے مہربانی کے مظاہرہ پر اُن کے ساتھ اچّھا ہی ہوگا۔
اور جہاں تک خصوصی پکوان فراہم کرنے کا تعلق ہے نوراتری کے دوران آئی آر سی ٹی سی فراہم کرتی بھی ہے ۔ اگر کیٹرنگ سروس چاہیے تو اس  فہرست میں مزید اضافہ کر سکتی ہے۔
فی الحال ہم لوگوں کو حقیقی زندگی کے ان سورماؤں کا جشن منانا چاہئے۔

ہمارے دوسرے مواد کو چیک کریں۔

: دیگر ٹیگز چیک کریں:

مقبول ترین مضامین