شتا بدی کا کیٹرنگ اسٹاف اصل ہیرو, میں صرف پیغام رساں ہوں

ادھر جب کہ وزیر مملکت برائے ریلوے نے میری ٹویٹ کو سراہا ہے مجھے امید ہے کہ پنٹری کار کے کارکنوں کو اپنی انسان دوستی کے اعتراف سے حوصلہ ملے گا

Date:

Share post:

پیر کی شام رانچی ھوڑہ شتا بدی ٹرین میں مجھے افطاری مہیا کرائی گئی اس سے متعلق میری ٹویٹ پر جو ردعمل آ رہا ہے اس سے میں بہت پر جوش ہوں۔ نہ صرف یہ پوسٹ سماجی میل جول کے میڈیا پر بہت بری طرح پھیلی بلکہ ٹائمز آف انڈیا، انڈیا ٹائمز, این ڈی ٹی وی (انگریزی ہندی دونوں), ہندوستان ٹائمز، انڈین ایکسپریس اور پی ٹی آئی سمیت تمام بڑی ہندوستانی میڈیا تنظیموں نےیہ خبر جاری کی۔ یہاں تک کہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی اس کی خبر نگاری ہوئی۔ یہ پیغام کروڑوں لوگوں تک پہنچا ۔ ہزاروں لوگوں نے ٹوئٹر، فیس بک اور جس جس نیوز ویب سائٹس پر یہ خبر چھپی وہاں،ردعمل کا بھی مظاہرہ کیا۔ حالات کے تسلسل نے مجھے اس رپورٹ کے لکھنے کے بارے میں سوچنے کی تحریک دی۔
بہتوں کا خیال ہے کہ مجھے یہ ٹویٹ نہیں کرنی چاہئے تھی کیونکہ حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ محبت اور امن کی ہر کاوشِ یا تو نظر انداز ہوتی ہے یا سز ا کی مستحق قرار دی جاتی ہے۔ اُن لوگوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ کہیں افطاری فراہم کرنے والے اسٹاف کو اپنے کام  سے ہاتھ نہ دھونا پڑے۔ بہتوں کا خیال تھا کہ مجھے اس پنٹري مین کو سراہنا چاہئے تھا ،موریلوے کو نہیں۔کئی دوسرے لوگ آپس میں اس پر بحث کرتے رہے اور کہا کہ جب دوسرے عقائد کے لوگ روزہ رکھے ہو ں تو اُن کیلئے خصوصی پکوان کا اہتمام کیا جائے۔
پہلی اہم بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مذہب میرے لئے ذاتی معاملہ ہے۔ میں یقین کرتا ہوں کہ عوامی زندگی میں اس کا زیادہ ذکر نہیں ہونا چاہئے ۔ پینٹری کے کارکنوں کا جذبہ اور میرا ردعمل دونوں چیزیں حقیقی اور فوری تھیں۔ افطار مہیا کرنا خصوصی جذبہ تھا ۔ نہ میں نے اس کا مطالبہ کیا تھا نہ درخواست۔ پھر میں گھر سے بنی ہوئی افطاری لے کر ٹرین پر سوار ہوا تھا ۔ میں چونکہ افطاری کے بعد گرم  چائے پینا پسند کرتا ہوں اس لئے میں نے روزہ کا حوالہ دیا۔ جب پنٹری والا چائے لے کر آیا تو میں نے صرف اتنا کہا کہ مجھے بعد میں دینا۔ چونکہ مجھے اس کا سبب بتانا تھا کہ کیوں بعد میں چائے پیوں گا اس لئے روزہ کا ذکر آیا۔ ورنہ شتا بدی اور راجدھانی جیسی ٹرینوں میں کیٹرنگ اسٹاف کو ناشتہ، کھانا اور چائے کی فراہمی کیلئے نظام _ اوقات کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ چونکہ میں نے روزے کی بات کہی تھی اس لئے پینٹری والے نے افطاری کی پلیٹ دینے سے پہلے پھر مجھ سے ایک بار پوچھا۔ جو آدمی افطاری لے کر آیا تھا وہ کوئی مسٹر پرساد تھا ۔
میں نے افطاری فراہم کرنے سے وابستہ دونوں افراد کا شکریہ ادا کیا پھر اس کے بارے میں ٹویٹ کیا۔ ایسا نہیں ملک کے موجودہ حالات کے پیش_ نظر اس طرح کی ٹویٹ کے مضمرات سے واقف نہیں کیونکہ اس وقت ماحول میں اتنی زہر نا کی ہے کہ مہربانی کے ہر عمل کی اہانت کی جاتی ہے۔
لیکن سفر کے دوران دشواریوں پر ہم لوگ ٹویٹ کرتے ہیں تو مہربانی کے اس عمل سے دنیا کو واقف کرنے کیلئے اس کا اشتراک کیوں نہ کیا جاتا؟ اور ٹویٹ کرتے وقت اس سچ کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں کہ ہندوستانی ریلوے کے تحت یہ سہولت مل رہی ہے ۔ ہاں مجھے بعد میں اس کا اندازہ ہوا کے مجھے آئی آر سی ٹی سی کے ٹویٹر ہینڈل کو بھی نشانہ کرنا چاہئے تھا۔
سماجی میڈیا پر سرگرم لوگوں نے اس طرف بھی اشارہ کیا کہ آج کے جو حالات ہیں ان میں ہندوستانی آرمی  کو بھی ایسی ایک ٹویٹ مجبوراً ڈیلیٹ کرنی پڑی تھی کیونکہ ایک نیوز چینل نے کشمیریوں کے ساتھ افطار کرنے والے فوجیوں کے خلاف پوری مہم چھیڑ دی تھی۔۔مجھے اس پس منظر میں بھی یہ ٹویٹ نہیں کرنا تھا۔
تو پھر لوگ پينٹری اسٹاف کی کوششوں سے کیسے واقف ہوں گے؟ میں اب بھی اس پر یقین کرتا ہوں کہ بیشتر ہندوستانی  امن اور محبت پر یقین رکھتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے جذبوں کی بھی قدر کرتے ہیں۔ اس پیغام کے اس طرح پھیلنے سے بھی یہی ثابت ہوا۔
اس کے علاوہ انسانیت کے ان سفیروں کے ساتھ کوئی نا انصافی ہو تو ہم اس کے خلاف کوئی موقف کیوں نہیں اختیار کر سکتے؟
یہاں زیر _ بحث معاملہ میں ایک وزیر _مملکت برائے ریلوے درشنا جردوش نے میری ٹویٹ کو سراہا ہے۔ مجھے یقین ہے دونوں پینٹر ی والوں کے مہربانی کے مظاہرہ پر اُن کے ساتھ اچّھا ہی ہوگا۔
اور جہاں تک خصوصی پکوان فراہم کرنے کا تعلق ہے نوراتری کے دوران آئی آر سی ٹی سی فراہم کرتی بھی ہے ۔ اگر کیٹرنگ سروس چاہیے تو اس  فہرست میں مزید اضافہ کر سکتی ہے۔
فی الحال ہم لوگوں کو حقیقی زندگی کے ان سورماؤں کا جشن منانا چاہئے۔
spot_img

Related articles

Dhurandhar Controversy Explained: Trauma, Representation, and Muslim Stereotypes

There is no moral ambiguity surrounding the Kandahar Hijack of 1999 or the 26/11 Mumbai Terror Attacks. These...

Garlands for Accused, Silence for Victim: Gita Path Assault Survivor Gets No Support

Eight days after a mob attack during Kolkata’s Gita Path event, patty seller Sheikh Riyajul remains traumatised and jobless. His Rs 3,000 earnings were destroyed, and the five accused walked free on bail. With no help from authorities or society, fear and financial pressure may force him to return.

Vande Mataram and the Crisis of Inclusive Nationalism: A Minority Perspective India Can’t Ignore

As India marks 150 years of Vande Mataram, political celebration has reignited long-standing objections from Muslims and other minorities. The debate highlights tensions between religious conscience, historical memory, and the risk of imposing majoritarian symbols as tests of national loyalty.

Bengal SIR Exercise Reveals Surprising Patterns in Voter Deletions

ECI draft electoral rolls show 58 lakh voter deletions in West Bengal. Data and independent analysis suggest non-Muslims, particularly Matuas and non-Bengali voters, are more affected. The findings challenge claims that voter exclusions under the SIR exercise primarily target Muslim infiltrators.