جیک ہورٹن، ڈینیئل پلمبو اور ٹم بولر
بی بی سی ریئلٹی چیک
امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے روسی تیل کی درآمد کو محدود کرنے کے اعلانات کیے ہیں۔
روس نے متنبہ کیا تھا کہ اگر اس کے تیل پر پابندی لگائی گئی تو وہ یورپی ممالک کو گیس کی سپلائی بند کر دے گا۔
روسی تیل اور گیس پر کیا پابندیاں عائد کی گئی ہیں؟
یوکرین نے عالمی طاقتوں سے روس پر وسیع پابندیوں کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد منگل کے روز امریکہ نے روسی تیل، گیس اور کوئلے کی درآمدات پر مکمل پابندی لگائی ہے۔
خیال ہے کہ برطانیہ اس سال کے اواخر تک روسی تیل کو مرحلہ وار انداز میں محدود کرے گا۔ جبکہ یورپی یونین تیل اور گیس کی اپنی درآمدات کو دو تہائی تک کم کرے گی۔
روس کے نائب وزیراعظم الیگزینڈر نوواک نے متنبہ کیا ہے کہ روسی تیل پر پابندی کے ’عالمی منڈی پر تباہ کن نتائج ہوں گے۔‘
روس کتنا تیل برآمد کرتا ہے؟
گذشتہ دنوں میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں بہت زیادہ بڑھی ہیں اور ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ قیمتوں میں اضافے کا رجحان جاری رہ سکتا ہے۔ اور اگر روس اپنے تیل کی دوسرے ممالک کو برآمد محدود کرتا ہے تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
روس امریکہ اور سعودی عرب کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ تیل برآمد کرنے والا ملک ہے۔
یہ روزانہ خام تیل کے قریب 50 لاکھ بیرل برآمد کرتا ہے۔ ان میں سے نصف سے زیادہ یورپ جاتے ہیں۔
امریکہ کا دیگر یورپی ممالک کی نسبت روسی تیل پر انحصار کم ہے۔ سنہ 2020 میں امریکہ نے اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے روس سے قریباً تین فیصد تیل حاصل کیا تھا۔
روسی گیس مغربی یورپ میں آنا بند ہو گئی تو کیا ہو گا؟
ایسی صورتحال میں گھروں کو گرم رکھنے کے اخراجات (یعنی ہیٹنگ) جو پہلے ہی بہت زیادہ ہے، مزید بڑھ جائے گی۔
یورپی یونین کے ممالک میں تقریباً 40 فیصد قدرتی گیس روس سے آتی ہے۔
اگر یہ سپلائی بند ہوتی ہے تو اٹلی اور جرمنی سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔
روس برطانیہ کو اس کی ضرورت کی قریب پانچ فیصد گیس سپلائی کرتا ہے جبکہ امریکہ روس سے گیس درآمد نہیں کرتا۔
تاہم سپلائی کی قلت کی وجہ سے اس اقدام سے برطانیہ اور امریکہ میں بھی گیس کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں۔
روسی گیس کے متبادل ذرائع مل سکتے ہیں؟
یہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔
توانائی کی پالیسی کے محقق بین میک ولیمز کہتے ہیں کہ ’گیس کا متبادل ڈھونڈنا مشکل ہے کیونکہ ہمارے پاس ایسے بڑے پائپ ہیں جو روسی گیس یورپ لے جا رہے ہیں۔‘
تھنک ٹینک بروگل کی پیشگوئی ہے کہ اگر روس یورپ تک گیس کی سپلائی روکتا ہے تو ممکنہ طور پر یورپ امریکہ سے مزید مائع قدرتی گیس (ایل این جی) درآمد کر سکتا ہے۔
اور یہ توانائی کے دیگر ذرائع کا استعمال بھی بڑھا سکتا ہے۔ تاہم ایسا کرنا آسان نہیں ہو گا۔
محقق سیمون تالیاپیئترا کے مطابق ’قابل تجدید ذرائع میں وقت لگ سکتا ہے اس لیے قلیل مدت میں کوئی حل نہیں ہے۔‘
’اگلی سردیوں میں متبادل ایندھن سے فرق پڑ سکتا ہے جیسے کوئلے کے پاور پلانٹ بنانا۔ اٹلی اور جرمنی نے ہنگامی صورتحال میں اسی کا منصوبہ بنایا ہوا ہے۔‘
یورپی یونین نے سنہ 2030 سے قبل یورپ کو روسی تیل اور گیس سے نجات دلانے کا منصوبہ تجویز کیا ہے جس میں گیس سپلائی کے لیے متبادل اقدامات شامل ہیں جبکہ گھروں کو گرم رکھنے یا بجلی پیدا کرنے کے لیے گیس کا استعمال کم کیا جائے گا۔
مگر روسی تیل کا کیا؟
بین میک ولیمز کہتے ہیں کہ ’تیل کی صورت میں متبادل ذرائع ڈھونڈنا آسان ہو گا کیونکہ اس کی زیادہ پائپ لائنز نہیں ہیں۔ کچھ پائپ لائنز روس سے آتی ہیں لیکن دیگر جگہوں سے اسے شپنگ سے بھی حاصل کیا جاتا ہے۔‘
امریکہ نے سعودی عرب سے اپنی تیل کی پیداوار بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے لیکن اس نے ماضی میں امریکہ کی جانب سے پیداوار بڑھانے اور تیل کی قیمتیں کم کرنے کے مطالبات کو رد کیا ہے۔
تیل کی پیداوار میں نمایاں ممالک کی تنظیم اوپیک پر بین الاقوامی منڈیاں خام تیل کی برآمد کے سلسلے میں 60 فیصد تک انحصار کرتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اوپیک تیل کی قیمتوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
روس اوپیک کا حصہ نہیں ہے تاہم یہ سنہ 2017 سے اس کے ساتھ کام کر رہا ہے تاکہ تیل کی پیداوار محدود کر سکے اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کی آمدن مستحکم کر سکے۔
امریکہ وینیزویلا پر تیل پر عائد پابندی نرم کرنے پر بھی غور کر رہا ہے۔ یہ امریکہ کی اہم سپلائی ہوا کرتا تھا مگر حال ہی میں یہ ملک زیادہ تر تیل چین کو فروخت کر رہا ہے۔
یورپ گیس کے لیے موجودہ برآمد کنندہ جیسے قطر کی طرف جا سکتا ہے، یا الجزائر اور نائجیریا سے بات کر سکتا ہے۔ لیکن فوری طور پر پیداوار بڑھانے میں عملی رکاوٹیں ہیں۔
کیا صارفین کے تیل اور گیس کے بِل بڑھ سکتے ہیں؟
اس جنگ کی وجہ سے صارفین کو ایندھن کی مد میں بڑی قیمت ادا کرنا ہو گی۔
برطانیہ میں گھریلو صارفین کے لیے بجلی و گیس کی قیمتوں کو مستحکم رکھا گیا ہے۔
لیکن یہ بل اپریل میں 700 پاؤنڈ سے قریب 2000 پاؤنڈ تک بڑھ سکتے ہیں جب اس پرائس کیپ کو بڑھایا جائے گا۔ رواں موسم خزاں کے دوران یہ بل 3000 پاؤنڈ تک بڑھ سکتے ہیں جب ان قیمتوں کو دوبارہ بڑھایا جائے گا۔
برطانیہ میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بھی بڑھی ہیں اور اگر یہ جنگ جاری رہی تو فی لیٹر پیٹرول کی قیمت 175 پینس تک جا سکتی ہے۔
امریکہ میں سنہ 2008 کے بعد پیٹرول کی قیمتیں سب سے زیادہ ہو گئی ہیں۔ امریکی آٹو موبائل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ گذشتہ ہفتے کے دوران پیٹرول پمپ پر قیمتیں 11 فیصد تک بڑھی ہیں۔
میک ولیمز کہتے ہیں کہ ’مجھے لگتا ہے کہ ہم ایسی دنیا میں ہیں جہاں اگر روسی تیل اور گیس کو یورپ جانے سے روکا جاتا ہے تو ہمیں زیادہ طلب والی مصنوعات کے استعمال کو محدود کرنے کے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔‘
’اب یہ بات چیت ہو سکتی ہے کہ ہم گھریلو صارفین سے اپنے تھرموسٹیٹ ایک ڈگری کم کرنا کا کہہ سکتے ہیں جس سے گیس کی بڑی بچت ہو گی۔‘
بی بی سی سے لیا گیا